سید عارفین رپورٹر جیو نیوز
شاہین رشید
انٹرویو
میڈیا میں مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں او ر اس کو کئی حصوں میں بانٹا ہوا ہے رپورٹنگ کی بھی مختلف اقسام ہیں جیسے سو شل ایشو کا الگ رپورٹر ،اکنامکس کا الگ اسپورٹس کا الگ اسی طرح کرائم رپورٹنگ بھی ایک علیحدہ رپورٹنگ ہے جو تمام اقسام سے مشکل اور خطر ناک ہے اور کرائم رپورٹر بننا ہر کسی کہ بس کی بات بھی نہیں ہم بھی آپ کو ایک کرائم رپورٹر کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جن کا نام سید عارفین ہے اور جیو نیوز میں پروگرام آج کامران خان کے ساتھ بطور نمائندہ خصوصی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سوال: جو نئے رپورٹرز اس میدان میں جدوجہد کررہے ہیں ان کو کیا مسائل درپیش ہے ؟
جواب: ملک میں اس وقت لگ بھگ پچاس نیوز چینلز کام کررہے ہیں جس دس اہم اور بڑے چینلز بھی شامل ہیں۔ نوجوان نسل میں اب نیوز چینلز میں بطور رپورٹر کام کرنے کے شوق پہلے کی نسبت زیادہ اجاگر ہورہاہے ۔ تاہم فیلڈ میں پہلے ہی کافی تعداد میں رپورٹرز موجود ہیں۔ایسے میں گریجوئیٹ ہونے والے طلباء کے لئے بڑے چینلز میں ملازمت حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ جو گریجوئیٹس کسی طرح سے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، وہ اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ مختلف واقعات کو کس طرح رپورٹ کیا جانا چاہیے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان اداروں میں ٹریننگ پروگرام کا نہ ہو نا ہے تاہم کچھ چینلز میں باقاعدگی سے آن جاب ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے جس میں جیو نیوز سر فہرست ہے۔
شاہین رشید
انٹرویو
میڈیا میں مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں او ر اس کو کئی حصوں میں بانٹا ہوا ہے رپورٹنگ کی بھی مختلف اقسام ہیں جیسے سو شل ایشو کا الگ رپورٹر ،اکنامکس کا الگ اسپورٹس کا الگ اسی طرح کرائم رپورٹنگ بھی ایک علیحدہ رپورٹنگ ہے جو تمام اقسام سے مشکل اور خطر ناک ہے اور کرائم رپورٹر بننا ہر کسی کہ بس کی بات بھی نہیں ہم بھی آپ کو ایک کرائم رپورٹر کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جن کا نام سید عارفین ہے اور جیو نیوز میں پروگرام آج کامران خان کے ساتھ بطور نمائندہ خصوصی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سوال: جو نئے رپورٹرز اس میدان میں جدوجہد کررہے ہیں ان کو کیا مسائل درپیش ہے ؟
جواب: ملک میں اس وقت لگ بھگ پچاس نیوز چینلز کام کررہے ہیں جس دس اہم اور بڑے چینلز بھی شامل ہیں۔ نوجوان نسل میں اب نیوز چینلز میں بطور رپورٹر کام کرنے کے شوق پہلے کی نسبت زیادہ اجاگر ہورہاہے ۔ تاہم فیلڈ میں پہلے ہی کافی تعداد میں رپورٹرز موجود ہیں۔ایسے میں گریجوئیٹ ہونے والے طلباء کے لئے بڑے چینلز میں ملازمت حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ جو گریجوئیٹس کسی طرح سے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، وہ اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ مختلف واقعات کو کس طرح رپورٹ کیا جانا چاہیے ۔ اس کی بنیادی وجہ ان اداروں میں ٹریننگ پروگرام کا نہ ہو نا ہے تاہم کچھ چینلز میں باقاعدگی سے آن جاب ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے جس میں جیو نیوز سر فہرست ہے۔
سوال: کس طرح آپ اپنی ڈیڈ لائن کو پورا کرتے ہیں؟
جواب:نیوز چینلز میں ہر دن اور ہر لمحے نئی خبر رپورٹر کا انتظار کرتی ہے اس لئے آپ کو اپنا اسائنمنٹ مختصر وقت میں مکمل کرنا ہوتا ہے اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کہیں آپ کی اسٹوری پرانی ہوکر رک نہ جائے۔ اگر اسی دوران کوئی اور بڑا واقعہ ہوگیا تو آپ کی بھر پومحنت سے تیار کی جانے والی رپورٹ نشر ہونے سے رہ سکتی ہے۔اسلیئے موجودہ صورتحال کے لحاظ سے رپورٹ پیش کرنا ہی مہارت ہے۔
جواب:نیوز چینلز میں ہر دن اور ہر لمحے نئی خبر رپورٹر کا انتظار کرتی ہے اس لئے آپ کو اپنا اسائنمنٹ مختصر وقت میں مکمل کرنا ہوتا ہے اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کہیں آپ کی اسٹوری پرانی ہوکر رک نہ جائے۔ اگر اسی دوران کوئی اور بڑا واقعہ ہوگیا تو آپ کی بھر پومحنت سے تیار کی جانے والی رپورٹ نشر ہونے سے رہ سکتی ہے۔اسلیئے موجودہ صورتحال کے لحاظ سے رپورٹ پیش کرنا ہی مہارت ہے۔
سوال: آپ نے بہت سے مسائل کا سامنا کیا ہوگا کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے
اور صحا فیوں کو دھمکیاں ملتی رہتی ہے اس میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب : میں اپنا کام ایمانداری سے کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں اور کامیاب بھی رہتا ہوں ۔ ایک چیز ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ جو بھی خبر فائل کریں آپ کے پاس اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت ہونے چاہیے اس طرح آپ بہت سے مشکلات سے بچ جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، خبر میں رپورٹر کو اپنی رائے نہیں دینی چاہیے، صرف حقائق بیان کریں ۔اور رپورٹ میں اگر کسی ادارے یا شخصیت کا ذکر ہے تو بھر پور کوشش کریں کے ان کا مؤقف بھی خبر میں شامل ہو۔بعض اوقات رپورٹر ز اس وقت مشکل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جب ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔
جواب : میں اپنا کام ایمانداری سے کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں اور کامیاب بھی رہتا ہوں ۔ ایک چیز ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ جو بھی خبر فائل کریں آپ کے پاس اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت ہونے چاہیے اس طرح آپ بہت سے مشکلات سے بچ جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، خبر میں رپورٹر کو اپنی رائے نہیں دینی چاہیے، صرف حقائق بیان کریں ۔اور رپورٹ میں اگر کسی ادارے یا شخصیت کا ذکر ہے تو بھر پور کوشش کریں کے ان کا مؤقف بھی خبر میں شامل ہو۔بعض اوقات رپورٹر ز اس وقت مشکل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جب ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔
سوال: آپ کوکرائم رپورٹر ہونے کے بارے میں سب سے بہتر کیا لگتا ہے اور اس کام میں بنیادی مسائل کیا ہے؟
جواب:میں ایک تحقیقاتی رپورٹر ہوں اور کسی بھی خبر کے اصل حقائق کا پتا لگانا ہی میرا مشن ہوتا ہے ۔ بعض اوقات رپورٹر ایک ایسی بند گلی میں پھنس جاتا ہے جہاں سے آگے کچھ نظر نہیں آتا ،میرا مطلب ہے کہ جہاں رپورٹر کو واقعے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل رہی ہوتی۔ سینئر صحافیوں کہ چونکہ رابطے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ایسی مشکلات کا کم ہی سامنا کرتے ہیں ، لیکن نئے آنے والے رپورٹر اکثر اس مشکل سے دوچار ہوتے ہیں۔
سوال: کرائمزکی رپورٹنگ کے لیے سب سے زیادہ کیا ضروری ہوتا ہے؟
جواب :فرض کریں کہ کہیں دھما کا ہوجائے ، تو جائے وقوعہ پر پہنچنے والے رپورٹر کو سب سے پہلے اپنے اوسان بحال کر کے جائے وقوعہ کا معائنہ کرنا چاہیے ۔ اس کے بعد وہاں موجود متعلقہ حکام سے جتنی زیادہ معلوما ت حاصل ہوسکے ، اس کا حصول یقینی بنائے۔واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے الفاظ کا چناؤمیں احتیاط رکھیں اور صر ف حقائق بیان کریں ۔
سوال: کرائمزکی رپورٹنگ کس طرح مختلف ہے دوسری رپورٹنگ سے اور اس میں کیا خطرات ہے؟؟
جواب:موجودہ حالات میں جب جائے وقوعہ سے عوام دور جارہی ہوتی ہے تو کرائم رپورٹرز حقائق جاننے کے لئے اس جانب لپک رہا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض موقع پر ایک بم دھماکے کے بعد ہونے والے دوسرے دھماکوں میں رپورٹرز اور کیمرہ مین ا پنی جانیں گنواں چکے ہیں جبکہ دیگر رپورٹنگ میں ایسے خطرات کم ہوتے ہیں ۔ ------------------------------------------------------------------------------
شاہین رشید ایم اے پریویئس سیکنڈ سیمسٹر کی طالبہ کے طور پریہ انٹرویو نومبر 2013 میں لیا ۔
جواب:موجودہ حالات میں جب جائے وقوعہ سے عوام دور جارہی ہوتی ہے تو کرائم رپورٹرز حقائق جاننے کے لئے اس جانب لپک رہا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بعض موقع پر ایک بم دھماکے کے بعد ہونے والے دوسرے دھماکوں میں رپورٹرز اور کیمرہ مین ا پنی جانیں گنواں چکے ہیں جبکہ دیگر رپورٹنگ میں ایسے خطرات کم ہوتے ہیں ۔ ------------------------------------------------------------------------------
شاہین رشید ایم اے پریویئس سیکنڈ سیمسٹر کی طالبہ کے طور پریہ انٹرویو نومبر 2013 میں لیا ۔
Practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment