Pages

Thursday, August 6, 2015

کیا افواہ کیا حقیقت۔۔۔؟

کیا افواہ کیا حقیقت۔۔۔؟
باسط حسین شایان
 un-edited
ہم روزانہ گھر پر بنے ہوئے کھانے تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی ہر شخص کا باہر یعنی ہوٹل وغیرہ پر بھی کھانا کھانے کا دل چاہتا ہے ، تو بس جب بھی کسی کی جیب میں تھوڑے سے زیادہ پیسے آجائیں تو اپنی فیملیز یا دوستوں کے ساتھ کسی ہوٹل وغیرہ پر کھانا کھانے کیلئے نکل پڑتے ہیں ۔ لیکن ہر کسی کو یہ بات ذہن میں رکھ کر کھانے کے ہوٹل کا رخ کرنا چاہیے کہ " آیا ہم جس ہوٹل یا دکان پر کھانا کھانے جا رہے ہیں وہاں معیاری کھانا دستیاب ہے بھی کہ نہیں " کیونکہ بہت سے چھو ٹے ہوٹلز اور فوڈ سینٹرز کے مالکان زیادہ منافع کے چکر میں غیر معیاری کھانا فروخت کرکے انسا ن کی صحت سے کھیل جاتے ہیں اور حقیقت سامنے آنے پر اپنے گاہکوں کا اعتماد بھی کھو بیٹھتے ہیں۔

جیسا کہ حال ہی میں حیدر آباد کے مصروف ترین علاقے لطیف آباد میں ( ایک بریانی کارنر ) معروف فوڈ سینٹر کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے تھے کہ مذکورہ فوڈ سینٹر پر گائے یا بھینس کے گوشت کے بجائے گدھے کے گوشت کی بریانی فروخت کی جاتی ہے یہ خبر پورے حیدرآباد اور گردونواح کے علاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور میڈیا کی ایک ٹیم بھی پہنچ گئی بعض لوگوں کی طرف سے تو یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ مذکورہ فوڈ سینٹر کے حوالے سے یہ انکشاف ہونے کے بعد اسے سیل کر دیا گیا ہے ۔
یہ خبر کتنی حقیقت اور کتنی جھوٹ پر مبنی ہے یہ جاننے کیلئے ہم نے مذکورہ فوڈ سینٹر پر پہنچ کر ہم نے جب بریانی کارنر کے مالک حاجی منگل سے رابطہ کیا اورا س خبر کے حوالے سے کچھ معلومات لی۔
مالک حاجی منگل نے بتایا کہ " لطیف آباد کا یہ علاقہ خاص طور پر بریا نی اور دیگر کھانوں کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں بیک وقت 40 سے 50 فوڈ سینٹر ز اور ٹھیلوں پر بریانی اور دیگر کھانے فروخت کیے جاتے ہیں جس سے ہماری زریعہ آمدن میں کافی اضافہ ہوتا ہے بس یہی بات ہمارے کچھ مخالفین کو گوارہ نہیں گزری اور انہوں نے ہمارے خلاف سوچی سمجھی سازش کی تحت یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ خاص طور پر ہمارے فوڈ سینٹر پر گائے یا بھینس کے گوشت کے بجائے گدھے کے گوشت کی بریانی فروخت کی جاتی ہے حالانکہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک گدھا 50 سے 60 ہزار میں ملتا ہے جبکہ ایک گائے 40 سے 50 ہزار میں با آسانی مل جاتی ہے اور گدھے کے مقابلے میں گائے میں کافی زیادہ مقدارمیں گوشت بھی ہوتا ہے تو پھر ہم اس طرح کا غلط کام کیوں کریں گے ہمارے خلاف اس طرح کی افواہ صرف کاروباری رقابت کی وجہ ہے اور جن لوگوں نے ہمارے خلاف یہ افواہ پھیلائی ہے ہم ان کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں اور قانونی کارروائی بھی کریں گے ۔"
بعض دوسرے ہوٹل مالکان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس افواہ کی وجہ سے ہمارے کاروبار کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے کیونکہ اب لوگ پہلے کی طرح زیادہ تعداد میں ہمارے ہوٹلوں کا رخ نہیں کرتے اور اگر کوئی آ بھی جائے تو زیادہ تر مرغی کی ڈشوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کھانوں میں مرے ہوئے جانوروں یا پھر کسی حرام جانور کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کیلئے آنے والوں نے بات چیت کے دوران بتایا کہ جب سے یہ بات سامنے آئی ہے ہم دوسرے گوشت کے بجائے صرف مرغی یا دال سبزی کا آرڈر دیتے ہیں کیونکہ ہم اس طرح مطمئن ہو کر کھانا کھا لیتے ہیں ۔
اس بات کے حوالے سے ہر کسی نے اپنا الگ الگ مؤقف پیش کیا کسی نے اسے افواہ قرار دیا تو کسی نے اسے حقیقت کہا لیکن جب ہم نے دیکھا کہ منگل بریانی والے نے اس افواہ کے بعد سے دوسرے گوشت کے بجائے اب صرف چکن بریانی فروخت کرنا شروع کر دی ہے اب آپ خو د بھی اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ محض افواہ ہو سکتی ہے یا حقیقت ۔۔۔!!


No comments:

Post a Comment