Pages

Thursday, August 6, 2015

ہمارے تعلیمی نظام کے مطابق تعلیم پیسہ ہے

ہمارے تعلیمی نظام کے مطابق تعلیم پیسہ ہے
کرن حسین ا
پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم طبقاتی نظام میں ڈھل چکاہے، جس میں زیادہ پیسے کمانے کی ہوس نے بہت سے لوگوں اور ان کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے محروم کردیا ہے۔ جگہ جگہ مختلف اسٹینڈرڈ کے اسکول کھلنے سے اقلیت کے اندر اچھی تعلیم پہنچی لیکن اکثریت کے اندر احساس محرومی نے جگہ لے لی۔جس طرح پاکستان کا نظام تعلیم پایا جاتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم صرف اس لئے حاصل کی جارہی ہے کہ شاید اس طرح اچھا پیسہ کما سکیں۔

ایک استاد جس پر طالب علم کا پورا مستقبل انحصار کرتا ہے صرف اپنی ڈیوٹی مکمل کرنے کے لئے تعلیم دے رہا ہوتا ہے وہ اس بات سے بلکل عاقل ہوتاہے آیا جو وہ پڑھا رہا ہے اس سے طالب علم کیا سیکھ رہا ہے ۔اگر ہم بات کریں وہاں سے جہاں سے تعلیم کی شروعات ہوتی ہے تو ہر انسان یہ خواہش کرتاہے کہ اپنے بچے کی اچھی تعلیم کے لئے نجی تعلیمی اداروں کا انتخاب کریں تاکہ وہ کچھ سیکھ سکیں اور ان کی بنیادطاقتور ہوکیونکہ سرکاری تعلیمی نظام کے مطابق تمام ٹیچرصرف اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے ہوتے ہیں انہیں صرف پیسے سے مطلب ہوتا ہے جن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسکول توجاتے ہیں اپنی حاضری لگانے لیکن کلاسوں تک بمشکل ہی پہنچتے ہیں اور اگر کلاسوں تک پہنچ بھی جائیں تو دوسری کلاسوں کے ٹیچرز کوجمع کرکے اجتماعی باتوں میں لگ جاتے ہیں اور طالب علموں کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ چھٹی جماعت میں پہنچنے کے بعد بھی پڑھنا نہیں جانتے سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت ان میں کسی مونٹیسری کلاس کے بچوں سے زیادہ نہیں ہوتی ۔
جن بچوں کے والدین تھوڑا پڑھانے کاشوق رکھتے ہیں ان کے بچے تھوڑا بہت سیکھ جاتے ہیں لیکن بنیاد ان کی بھی کچھ خاص نہیں ہوتی ،اور اگر ہم بات کریں نجی تعلیمی اداروں کی تو جس بھروسے والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں ان سے پیسوں کے نام پر بھروسہ تو دیاجاتاہے لیکن معیار کچھ یوں ہوتا ہے کہ میٹرک کی ہوئی لڑکیوں کو بطور ٹیچرز رکھ لیا جاتا ہے ایک ایساانسان جو خود تعلیم کے دور سے گزر رہا ہو صرف چند ہی سیڑہیاں تعلیم کی پار کی ہوں وہ اس لیول تک ہی نہ پہنچا ہو جو سیکھنے کا اصل دورہ ہوتا ہے توخود کسی کو کیسے تعلیم سے روشناس کرے گا ایسے انسان جیسے ٹیچرکا نام دیا جاتا ہے۔
بچوں کی تعلیمی بنیاد کو رٹوں کی مشین بنا دیتے ہیں اور اسی طرح یہ چین چلتے چلتے وہ خود بھی پیسہ حاصل کرنے کے لئے میٹرک کے بعد ٹیچنگ کا شعبہ اختیار کرلیتے ہیں ۔
جن اسکولو ں میں واقعی تعلیم کا بہترین نظام پایا جاتا ہے اس میں فیسوں کا اتنا ذیادہ مطالبہ ہوتا ہے کہ کسی بھی عام انسان کے لئے ایسے اچھے اسکولوں میں پڑھانا ناممکن ہوجاتا ہے 3ماہ میں تقریبا پچیس ہزار ایک بچے کی فیس لی جاتی ہے اور جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے فیس بھی بڑھادی جاتی ہے اور کسی بھی عام انسان کے لئے ایسے اسکولوں میں پڑھاناناممکن سی بات ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں ایسے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں جن کی ایک ماہ کی تنخواہ ہی دس ہزار روپے ہی ہوتی ہے، وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائیں یا کھانا کھلائیں اسی لئے پاکستان میں جو ترقی یافتہ لوگ ہیں وہ ہی مذید ترقی کر رہے ہیں اور تعلیم کے کسی اچھے مقام پر نظر آتے ہیں باقی سب کی حالت کچھ خاص نہیں پائی جاتی اور پاکستان میں تعلیم کا سب سے بُرا نظام نقل کرنا ہے ،اگر پاکستان کے طالب علموں سے تعلیم میں نکل کرنے کا رجحان ختم کردیا جائے تو بہت کم ہی لوگ ایسے ہونگے جو تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی لیں اور معیاری ڈگری حاصل کریں۔
(نومبر 2013 )
کرن بی ایس پارٹ تھری سیکنڈ سیمسٹرکی طالبہ ہیں

Practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment