پروفائیل: محمد بلال اعظم
تحریر: عبدالرحمن
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
زندگی ایک دریا کی مانند ہے اور مشکلات اس دریا کی موجیں ہیں جن کے ارادے پختہ ہوں اور ان میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو وہی لوگ زندگی کی ان مشکلات اور حالات سے مقابلہ کرتے ہیں اور یہی لوگ در حقیقت اپنی محنت ، جدوجہد اور ہمت سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہیں اور معاشرے میں اپنا ایک خاص مقام اور عزت بناتے ہیں ۔
1980 میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سمندری میں پیدا ہونے والے محمد بلال اعظم بھی انہی لوگوں میں ایک ہیں جنہوں نے زندگی کی مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکا مقابلہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو اس کیلئے راہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں ۔
محمد بلال اعظم نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی والد صاحب گورنمنٹ ملازم تھے اگر چہ انکی اتنی زیادہ آمدنی تو نہیں تھی مگر زندگی کی بنیادی سہولیات میسر تھیں ۔ جب 4 سال کے ہوئے تو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے آپکو گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا گیا ۔ 7 سال کی عمر میں ایک دن جب آپ تیسری جماعت کا امتحان دینے کے بعد گھر لوٹے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا اور یہیں سے آپکے تعلیمی امتحان کے ساتھ ساتھ زندگی کے امتحان بھی شروع ہو گئے ۔
والد صاحب کے بعد جب گھر کے حالات خراب ہونے لگے تو بڑے بھائی ہونے کے ناطے آپ لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس آگئے اور اردو بازار میں ایک کتابوں کی دکان پر کام کرنے لگے اور ساتھ ہی اپنی تعلیمی پیاس بھی بجھاتے رہے اگر چہ دکان سے زیادہ پیسے تو نہیں ملتے تھے مگر پھر بھی آپ اپنی خواہشات کا دم گھوٹ کر ان پیسوں سے اپنی پڑھائی کا خرچہ پورا کر لیا کرتے تھے ۔
1994 میں میٹرک اور 1996 میں FAکا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا جس کی بدولت آپکو پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں زیادہ مشکل درپیش نہیں آئی ۔2002 میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میں لکھنا شروع کیا اور 5سال تک مختلف این جی اوز اور پرائیویٹ اداروں میں بھی کام کیا اور بہتر سے بہتر کی تلاش کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ 2008 میں آپ نے وقت ٹی وی نیوز میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کے عہدے سے باقاعدہ طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا مگر اس دوران بھی آپ نے محنت ، ہمت اور جذبے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور مزید دل لگا کر کام کرنے لگے ۔ آپکی محنت اور جذبے کو دیکھتے ہوئے ادارے نے 2010 میں آپکو پروڈیوسر کے عہدے پر فائز کیا ۔
آپ کا یہ ماننا ہے کہ زندگی کے امتحان ہی انسان کو حقیقی زندگی گزارنے اور زندگی کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ممکن اور ناممکن صرف ہماری سوچ کا حصہ ہے جبکہ دنیا کا ایسا کوئی بھی کام نہیں ہے جو ناممکن ہوہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ضرورہوتا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مشکل حالات میں کس حد تک ثابت قدم رہتا ہے اورکیسے ان مشکلات کاحل نکالتا ہے ۔
2013
تحریر: عبدالرحمن
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
زندگی ایک دریا کی مانند ہے اور مشکلات اس دریا کی موجیں ہیں جن کے ارادے پختہ ہوں اور ان میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو وہی لوگ زندگی کی ان مشکلات اور حالات سے مقابلہ کرتے ہیں اور یہی لوگ در حقیقت اپنی محنت ، جدوجہد اور ہمت سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہیں اور معاشرے میں اپنا ایک خاص مقام اور عزت بناتے ہیں ۔
1980 میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سمندری میں پیدا ہونے والے محمد بلال اعظم بھی انہی لوگوں میں ایک ہیں جنہوں نے زندگی کی مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکا مقابلہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو اس کیلئے راہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں ۔
محمد بلال اعظم نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی والد صاحب گورنمنٹ ملازم تھے اگر چہ انکی اتنی زیادہ آمدنی تو نہیں تھی مگر زندگی کی بنیادی سہولیات میسر تھیں ۔ جب 4 سال کے ہوئے تو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے آپکو گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا گیا ۔ 7 سال کی عمر میں ایک دن جب آپ تیسری جماعت کا امتحان دینے کے بعد گھر لوٹے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا اور یہیں سے آپکے تعلیمی امتحان کے ساتھ ساتھ زندگی کے امتحان بھی شروع ہو گئے ۔
والد صاحب کے بعد جب گھر کے حالات خراب ہونے لگے تو بڑے بھائی ہونے کے ناطے آپ لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس آگئے اور اردو بازار میں ایک کتابوں کی دکان پر کام کرنے لگے اور ساتھ ہی اپنی تعلیمی پیاس بھی بجھاتے رہے اگر چہ دکان سے زیادہ پیسے تو نہیں ملتے تھے مگر پھر بھی آپ اپنی خواہشات کا دم گھوٹ کر ان پیسوں سے اپنی پڑھائی کا خرچہ پورا کر لیا کرتے تھے ۔
1994 میں میٹرک اور 1996 میں FAکا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا جس کی بدولت آپکو پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں زیادہ مشکل درپیش نہیں آئی ۔2002 میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میں لکھنا شروع کیا اور 5سال تک مختلف این جی اوز اور پرائیویٹ اداروں میں بھی کام کیا اور بہتر سے بہتر کی تلاش کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ 2008 میں آپ نے وقت ٹی وی نیوز میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کے عہدے سے باقاعدہ طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا مگر اس دوران بھی آپ نے محنت ، ہمت اور جذبے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور مزید دل لگا کر کام کرنے لگے ۔ آپکی محنت اور جذبے کو دیکھتے ہوئے ادارے نے 2010 میں آپکو پروڈیوسر کے عہدے پر فائز کیا ۔
آپ کا یہ ماننا ہے کہ زندگی کے امتحان ہی انسان کو حقیقی زندگی گزارنے اور زندگی کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ممکن اور ناممکن صرف ہماری سوچ کا حصہ ہے جبکہ دنیا کا ایسا کوئی بھی کام نہیں ہے جو ناممکن ہوہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ضرورہوتا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مشکل حالات میں کس حد تک ثابت قدم رہتا ہے اورکیسے ان مشکلات کاحل نکالتا ہے ۔
2013
This is Cv type. no description of personality, his characteristics, uniqueness
ReplyDelete