Pages

Thursday, August 6, 2015

مجبوری کے ہاتھوں ہیجڑا بننا پڑا

پروفائل تحریر: شرمین ناز:اورنگزیب منظورکو مجبوری کے ہاتھوں ہیجڑا بننا پڑا

یوں تو مجبوری انسان سے بہت کچھ کروا دیتی ہے اور مجبور انسان اپنا ضمیر تک بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس مجبوری کے تحت اسکو کیا سے کیا نہیں کرنا پڑتا اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ جو قدم اٹھا رہا ہے اس کا کیا انجام ہوگا ۔ایسے ہی ایک مجبور شخص جو حالات کی وجہ سے ہیجڑا بننے پر مجبور ہو گیا ۔یہ شخص پہلے لڑکا تھا پر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہیجڑا بن گیا ۔

اس شخص کا نام اورنگزیب ہے اوان کے والد کا نام منظور ہے جو کہ ۵نمبر عسائیوں کی کالونی میں رہائش پذیر ہے ۔انہوں نے بلکل نہیں پڑھا ،اوان کے بھائی HDAمیں گورنمنٹ ملا زم ہیں انکی والدہ محمدی ہسپتال میں ملازمہ تھی پر طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے انھیں ریٹائرمنٹ مل گئی ،پھر اورنگزیب بطور امی کی جگہ محمدی ہسپتال میں ملازم کا کام کرنے لگا ۔ کا م یہ تھا کہ بیڈ کی صفائی کرنا،چادر تبدیل کرنا وغیرہ وغیرہ۔

انکی تین بہنیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں اور ابو شوگر کے مریض ہیں۔ان کے چھوٹے بھائی کو کسی نے گولی مار دی تھی اور انہوں نے ملازم کی نوکری چھوڑ دی تھی اور امی کا خیال رکھنے لگے پر یہ صدمہ اوران کی امی برداشت نہیں کر پائی اور اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
امی کے انتقال کے بعد اورنگزیب کو اسکے بھائی بھابھی نے گھر سے نکال دیا۔ بھائی بھابھی کا اُنکے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا وہ اورانہیں اچھا نہیں سمجھتے تھے ،کیونکہ ا گھرمیں اُن کا حصہ تھا اور وہ اوراُنہیں حصہ نہیں دینا چاہتے تھے۔اورنگزیب کے بھائی اپنے ابو امی کی ساری پینشن فوراً ہڑپ کر جاتے اور اُنہیں کچھ بھی نہ دیتے وہ انتہائی لالچی شخص تھا ۔

اب اورنگزیب کے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ نہیں تھاگلیوں میں مارا مارا پھرتااور بھیگ مانگتا ۔پھر اسے ایک جگہ ہیجڑوں کے ساتھ رہنے کا ٹھکانہ مل گیا اورنگزیب بھی کیا کرتا اسکی مجبوری تھی اسکورہنے کی جگہ جو چاہیے تھی ۔اووہ ہیجڑوں کے ساتھ رہ رہ کر خود ہیجڑا بن گیا ہیجڑوں جیسے کپڑے پہننے لگا اور خوب تیار شیار ہونے لگا جیسے کہ وہ کو ئی لڑکی ہو۔

پھر ایک دن اپنے بھائی کے گھر گیا اپناحصہ مانگنے تو اسکے بھائی نے اسے بہت مارا اور کہا کہ تم تو نہ عورت ہو نہ مرد ہم تمھارا حصہ کہا سے دیں۔ پھر دوبارہ اسکو اسکے بھائی نے گھر سے نکال دیا پھر روزانہ آتا پیسے مانگنے کے لئیے،اسکے پاس تو کھانے تک کے پیسے نہ تھے ۔ پھر اسکی بھابھی نے کہا کہ ہم تمہیں ایک شرط پر گھر میں رہنے دیں گے جو ہم کہیں گے ویسا تمہیں کرنا ہوگا۔پھروہ سوچنے لگا کہ باہر تو لوگ چین سے جینے نہیں دیتے لوگ مزاق اڑاتے ہیں میرے کپڑوں اور ہیجڑے پن کی وجہ سے ،لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ہیجڑا ہے۔لوگوں کی ان باتوں سے تنگ آکر اس نے بھابھی کی بات مان لی اسکی بھابھی کہتی تم روز گھر کی صفائی کرو تب تمہیں کھانا اورپیسے دونوں ملے گے ۔اب وہ گھر میں نوکر کی حیثیت سے رہنے لگا۔ وہ گھر کے سب کام کرتا پر اسکو اسکے کام کے پیسے نہیں دیتے تھے اور کہتے کہ تمہیں رہنے کی جگہ جو دی ہوئی ہے۔

اورنگزیب کی بھابھی اس سے سب کام کرواتی جیسے کھانا پکوانا ،کپڑے دھونا ،استری کرنا،بچوں کو اسکول سے لے کر اور چھوڑ کر آنا ،گھر کی صفائی کرنا برتن دھونا وغیرہ وغیرہ۔اور اتنے کام کرنے کے باوجود اورنگزیب اپنے بھائی سے پیسے مانگتا تو وہ اس کو کہتے کہ گھر سے نکال دوں گا۔
یہی وجہ ہے کہ اورنگذیب ہیجڑا بننے پر مجبور ہوا گلی گلی گھوم کر ڈھول بجا کر اور تالیاں بجا کر پیسے مانگتا،ڈانس کرتا اور شادی بیاہ میں جا کر فنگشن میں ڈانس کرتا ہے اور اس کام میں جو پیسے ملتے وہ اپنے ابو کی بیماری پر خرچ کرتا اور ان پیسوں سے اپنا خرچہ بھی چلاتا اور عید وغیرہ پر اپنی بہنوں کو عیدی وغیرہ بھی دیتا ہے۔

آج کل تو رشتے نام کے رہ گئے ہیں اور انسان حالت سے مجبور آکر ہی ایسا قدم اٹھاتاجیسا کہ اورنگزیب نے کیا اگر وہ پڑھا لکھا ہوتا تو کبھی ایسا راستہ اختیار نہ کرتا ۔
  Sharmeen Naz (2013)
شرمین ناز بی ایس پارٹ تھری سیکنڈ سیمسٹر کی طالبہ ہیں


Practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment