New and old Parks of Hyderabad Sindh
سندس قریشی
2k12/MC/106
حیدرآباد کے نئے اور پرانے پارک
حیدرآباد سندھ کا دوسرا اور پاکستان کا 5واں بڑا شہر ہے ، حیدرآباد شہر تاریخ کے حساب سے قدیمی شہر ہے ،یہ 1768ء میں میاں غلام شاہ کلہوڑو کے دور سے تاریخی وجود میں آیا جو شروع میں نیرون کوٹ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔پاکستان بننے سے پہلے حیدرآباد ہندوستان کا پیرس مانا جاتا تھا ، کیونکہ کے اس کے راستے اور سڑکیں دریاہ سندھ کے پانی سے دھوئے جاتے تھے۔
سندس قریشی
2k12/MC/106
حیدرآباد کے نئے اور پرانے پارک
حیدرآباد سندھ کا دوسرا اور پاکستان کا 5واں بڑا شہر ہے ، حیدرآباد شہر تاریخ کے حساب سے قدیمی شہر ہے ،یہ 1768ء میں میاں غلام شاہ کلہوڑو کے دور سے تاریخی وجود میں آیا جو شروع میں نیرون کوٹ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔پاکستان بننے سے پہلے حیدرآباد ہندوستان کا پیرس مانا جاتا تھا ، کیونکہ کے اس کے راستے اور سڑکیں دریاہ سندھ کے پانی سے دھوئے جاتے تھے۔
حیدرآباد کی مجموعی آبادی 25لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 60.07 فیصد لوگ شہری
علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کراچی کے بعد زیادہ شہرہی علاقوں سے تعلق
رکھنے والی عوام کا دوسرے نمبر پر شہر کراچی ہے۔ حیدرآباد میں کافی عرصہ
قبل تفریح کے لیے کئی پبلک پارک بنائے تھے جن کی تعداد اچھی خاصی تھی جن
میں گل سینٹر کے قریب پریم پارک ، گول بلڈنگ پر رام داس پارک، پکے قلعے
کے قریب ہوم اسٹیڈ ہال پارک، تین نمبر تالاب پر مکھی کا باغ،گدو کے قریب
گدو پارک،نور محل سینیما کے قریب شام داس پارک، کالی موری پر ڈھولن داس
پارک،پھلیلی کا قریب دلشاد پارک اور تروٹ باغ وغیرہ جیسے پارک لوگوں کو
تفریح کا مرکز ہوا کرتے تھے مگر اب ان پارک کا نام و نشان تک باقی نہیں
رہا نہ اب وہ لوگ بچیں ہیں جو ان جگہوں کے بارے میں معلومات فراہم
کر سکے یہ تمام تر مقامات اپنے وقت کے بہترین انتظامات اور مکمل تفریحی
سے مزین تھے۔ اب ان کی جگہوں پر کہیں شاپنگ سینٹرز تو کہیں رہائشی
پلازہ تعمیر کردئیے گئے ہیں۔
حیدرآباد نورانی بستی میں2009ء کے بعد مصطفی
پارک کے نام سے ایک فیملی پارک کا آغاز کیا گیا جو اپنے ابتدائی دور میں
ایک شاندار پارک تھا۔ اس میں فیملیز اور بچوں کے لیے تفریح کے بھرپور
انتظامات موجود تھے مگر کچھ عرصہ بعد ہی انتظامیہ اور عوام کی غفلت کے باعث
یہ پارک بھی تباہ ہوگیا اور اس کے اطراف کے لوگ اور بچے ایک اور تفریحی
مقام سے محروم ہوگئے یہ پارک آج بھی اپنی جگہ موجود ہے مگر یہ آج کھنڈر کی
صورت اختیار کر چکا ہے، نہ وہاں کوئی آ سکتا ہے نہ جا سکتا ہے اور انتظامیہ
اس پارک کے حالات کو بہتر کرنے اور اس پر غور وفکر کرنے سے قاصر ہے۔
اور اب موجودہ وقت میں صرف قاسم آباد کے قریب رانی باغ، قاسم چوک پر عسکری
پارک ڈ یفنس میں ڈیفنس پارک، گنجو ٹکر پر ہل پارک، نیو حیدرآباد سٹی میں
حیدرآباد سٹی پارک موجود ہیں ۔جن میں سے بھی ہل پارک، نیو حیدرآباد سٹی
پارک ختم ہونے کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور صرف اب رانی باغ ہی تفریح کے
لیے موجود ہے۔ رانی باغ پارک کا وجود 1861ء میں ہوا جو شروع میں داس گارڈن
کے نام سے پہچانا جاتا تھا بعد میں اس میں خوبصورت پرندے ، نایاب جانور
اور مزید پودے اور درخت بھی لگائے گئے ۔
رانی باغ 53 ایکڑ کی اراضی پر
مشتمل ہے جو 4 مختلف حصوں میں تقسیم ہے جیسا کہ انیمیل ایریا، پارک ،گارڈن
اور پلے لینڈ ایریا، عید گاہ ایریا ، عباس بھائی پارک ہے۔ رانی باغ کے
حوالے سے وہاں پر موجود تفریح کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے چند سوال کرنے پر
انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد شہر میں تفریح کے لیے پارک یا تفریح گاہیں
موجود نہیں ہیں صرف رانی باغ ہی ہے جس میں ہم تفریح کے لیے آتے ہیں، کچھ
لوگوں کا کہنا تھا کے رانی باغ بھی کچھ عرصہ قبل بند ہونے کے مقام پر پہنچ
گیا تھا پر موجودہ وقت میں پارک پر حکومت نے دھیان دیا ہے اور پولیس کے
حوالے سے بھی اچھے انتظامات ہیں اسی وجہ سے ہی فیملیز آنا شروع ہوئی اور یہ
بھی کہا کہ رانی باغ کو اور خوبصورت بنانے کی اور مزید نایاب جانور اور
پرندے لانے کی بھی ضرورت ہے جب اس حوالے سے ڈائریکٹر سے یہ بات پوچھی گئی
تو انہوں نے بتایا کے ہم نے متعلقہ افسران کو اس بارے میں لکھا ہے اور
انہوں نے جلد مزید نایاب پرندے اور جانور مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی
ہے۔
حیدرآباد میں کچھ عرصہ قبل نیوحیدرآباد سٹی بھی تفریحی لحاظ سے اپنے عروج
پر تھا مگر حکومتِ وقت کی غفلت اور معقول حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ
سے مختلف قسم کے تصادم کے بعد بند کردیا گیا۔ اس پارک کا مالک کوثر بھٹی
تھے جنہوں نے اپنے ذاتی خرچے سے اس پارک کا قیام کیا تھا۔ہل پارک بھی زبوں
حالی کا شکار ہے وہاں پر تفریح کے لحاظ سے کسی قسم کی سہولیات موجود
نہیں ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کے حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اس
شہر میں تفریح کے لیے کوئی خاص انتظامات اور جگہیں موجود نہیں ہیں۔ پہلے کے
دور میں پارک موجود تھے مگر ان میں سے کچھ باقی نہیں رہے اور جو ہیں وہ
بھی انتظامیہ کی غفلت کے باعث ختم ہوتے جارہے ہیں۔عید کے دنوں میں لوگ
پارک وغیرہ میں بچوں کو لے کر ان کی خوشیاں دوبالاہ کرتے تھے مگر اب
موجودہ وقت میں ایسی جگہوں کی کمی کے باعث لوگ گھر وں پر ہی محدود ہو کر رہ
گئے ہیں۔
حیدرآباد کے لوگ گرمیوں میں مجبوراً تفریح کے لیے گھارو پارک یا
ڈریم ورلڈ جیسے مہنگے پارک کا رخ کرتے نظر آتے ہیں جب کہ حکومتِ سندہ
کو چاہئیے کہ وہ حیدرآباد شہر کی عوام کے لئے ایسی جگہوں اور تفریحی
مقامات کا اجراء کر کے لوگوں کو تفریحی مواقعے فراہم کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔
Un-edited
This practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi
Un-edited
This practical work was done under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment