پلا"کا پلہ بھاری نہیں رہا By Kanwal Zaidi
فیچر: "پلا"کا پلہ بھاری نہیں رہا
المنظر کا خوبصورت منظر ہو اور "پلا"مچھلی کی اشتہا انگیز خوشبو۔زائقے کے
اعتبار سے مچھلیوں کی ملکہ تصور کی جانے والی یہ مچھلی جس کا حیا تیاتی یا
سا ئنسی نام tenualosa ilshaہے۔اس کا شہرہ صرف سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ
اسے بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی بہت پسند کیا جا تا ہے۔اپمے ذائقے اور
خوشبو کی طرح اس کی زندگی بھی منفرد نوعیت کی ہے۔یہ مچھلی میٹھے اور کھارے
دونوں پا نیوں میں رہتی ہے۔یہ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ کھارے پانی میں
گزارتی ہے۔مقامی لوگ اسے طاقتور مچھلی کہتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے
کہ یہ پانی کے دھارے کی مخالف سمت میں سفر کر کے سمندر سے دریا میں داخل
ہوتی ہے۔
پلا مچھلی کو بنگلہ دیش کی قومی مچھلی کا درجہ حاصل ہےاور اسے مغربی
بنگال،اڈیسہ،تری پورہ،آسام(بھارت)میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہے۔اس کے اندر
بڑے تعداد میں باریک باریک کانٹے ہوتے ہیں لہذا اسے کھانے کے لیے خاص مہارت
کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اسے شوق سے کھانے والوں کے کیے یہ بات کوئی معنی
نہیں رکھتی اور اسے اس طرح پکایا جا تا ہے کہ کانٹے زیادہ سخت نہیں رہ
پاتے۔بنگلہ دیش کے تمام بڑے دریاوں میں یہ مچھلی عام طور پر پائی جا تی
ہے۔مثلا پدما دریا(زیریں گنگا)،مہگنا(زیریں برہم پرا) اور گوداوری۔تاہم
پدما دریا میں پائی جانے والی پلا مچھلی کو بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ لذیذ
تسلیم کیا جاتا ہے۔بھارت میں روپ نارائن دریا،گنگا،مہاندی،چھلکا جھیل اور
گوداوری دریا میں پائی جانے والی مچھلیاں لذت کے اعتبار سے خاصی شہرت رکھتی
ہیں۔پاکستان میں ضلع ٹھٹھہ میں پلا مچھلیاں سب سے زیادہ تعداد میں پائی
جاتی ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہندو خاندان کے
لیے یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے مطلب یہ کہ پوجا پاٹ کے روز یہ لوگ پوجا پاٹ
کے دوران بھی یہ مچھلی اپنے دیوی دیوتاوں کو چڑھاتے ہیں۔
اس مچھلی کے بارے میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس میں کافی
مقدار میں تیل ہوتا ہے جس میں فیٹی ایسڈ(اومیگا3فیٹی ایسڈز)کی حاصی مقدار
ہوتی ہے۔اومیگا3فیٹی ایسڈز کے بارے میں حال ہی مہں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ
یہ جانداروں میں کولسٹرول اور انسولین کم سطح پر رکھنے کے ضمن میں معاون
ہوتا ہے۔یہ مچھلی بھارت پاکستان اور بنگلہ دہش میں مختلف طریقوں سے پکائی
جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے پکانے کے 50معروف طریقے ہیں۔اسے کم تیل میں
آسانی سے تلا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں خود کافی مقدار میں تیل ہوتا ہے۔آج
کل یہ حال ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی 80فیصد پلا مچھلی برما سے در
آمد کی جاتی ہے۔یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی،حیدر آباد اور
ٹھٹھہ کے ہوٹلوں میں اور سٹکوں کے کنارے فروخت ہونے والی پلا مچھلی دریائے
سندھ سے نہیں پکڑی گئی۔کہا جاتا ہے کہ صرف ماہر ملاح ہی مقامی اور در آمد
شدہ پلا مچھلی میں فرق کر سکتے ہیں۔
practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi at department of Mass Comm university of Sindh in 2012,
Kanwal Zaidi, She was student of M.A Previous
Also visit: http://weeklyroshni.blogspot.com/2013/09/blog-post_7020.html
ReplyDelete