Pages

Wednesday, July 1, 2015

روشنی سے روشنی تک - سحرش سید

 By Sehrish Syed 
سحرش سید
ایم ۔اے
روشنی سے روشنی تک
میں نے پہلی دفعہ ماس کام ڈپارٹمنٹ میں قدم رکھا تو اس کے ماحول اور ارد گرد لگے ہوئے الیکٹرو نک اور پرنٹ میڈیا کے لوگوز مجھے اپنی طرف مائل کئے بنا نہ رہ سکے۔ میں کتنی ہی دیر بنا وقت کی پرواہ کئے ادھر سے ادھر اس رنگ رنگیلی دنیا میں میں اپنی جگہ کا تعین کرتی رہی یہ دنیا مجھے قوس و قزاح کے رنگوں سے بھر پور لگی جس میں ہر شئے میری سوچ اور نظر کی عکاسی کر رہی تھی۔

آج بھی بھلائے نہیں بھولتی ۔ایم اے پریوئس کی طلباء کی نیوز پیپر پروڈکشن کی پہلی کلاس جو کہ تھرڈ ایئر کے ساتھ ارینج کی گئی تھی۔ تھرڈ ایئر کے تمام طلباء و طالبات اپنی اپنی نشستوں پر بر جمان تھے۔ ہم سب نے اپنی مدد آپ کے تحت کرسی کا بندو بست کرکے خود کو اس کلاس کا حصہ بنایا۔ اس کلاس کے ٹیچر جن کی آواز ہم تک نہیں پہنچ پا رہی تھی سر سہیل سانگی جن کہ بغیر روشنی نہیں اندھیرا ہے۔ اگر وہ یہ کہتے تو صحیح تھاکہ
اور مجھ سے پہلے روشنی نہیں تھی اور میں چلا جاؤں گا تو بھی نہیں ہو گی۔

انہوں نے اس کلاس میں بتایا کہیہ مضمون مکمل پریکٹیکل ورک ہے۔ جو کہ میرے لئے ایک انکشاف سے کم نہ تھا۔ہمارے ڈپارٹمنٹ سے ہفتہ وار نکالے جانے والے روشنی اخبار پر منحصر ہے۔سر کے بتانے کا انداز حرف بہ حرف بتانے سے قاصر ہوں ۔لیکن بقول سر اس کام کیلئے یعنی اس اخبار کو چلانے کیلئے ہم سب سے پہلے ایڈیٹوریل بورڈ منتخب کرتے ہیں۔یہ اخبار تین زبانوں پر مشتمل ہے: انگریزی، ،اردواور سندھی، تاکہ ہر شخص بخوبی حصہ لے سکے۔

اس کے علاوہ جتنے بھی طالب علم ہیں انہیں بیٹ الاٹ کی جاتی ہے لفظ بیٹ میرے ذہن میں اٹک سا گیا تھا سر کے بھر پور طریقے سے سمجھانے کے باوجود مجھے یہ دنیا نئی پر دلچسپ لگی ۔سر نے بتایا اس میں آپ کو لکھنا ہو گا جو کہ ہم روشنی میں شائع کرینگے ۔ہمارا اخبار ملک کی تمام یونیورسٹیز کے مسا کام شعبوں میں بھیجا جاتا ہے، اور اپنی یونیورسٹی کے ہر شعبے میں بھی دیا جاتا ہے۔ یہ سب مجھے ایک ہوا سا لگاپہلی کلاس اور اوپر سے ایک نئی دنیا۔

آپ میں سے کون ایڈیٹوریل بورڈ میں آنا چاہے گا؟ میں نہیں جانتی تھی ایڈیٹر کیا ہے پر ہماری کلاس کے سی آر حیدر زریاب نے کہا کہ آپ کھڑی ہو جاؤ اور میں نے کھڑی ہوکر اپنا نام ایڈیٹرس میں لکھوا دیا ۔ اس اعتماد پر میری دوست کنول کا کہنا ہے: کہ اس لمحے میں تجھ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی میں نے سوچا کہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ایڈیٹنگ کیا ہے پھر بھی اس نے ہمت کی اور یہ آگے بڑھی۔

دوسرے دن سر سانگی کے اپنے پاس بلانے پر مجھے حیرت ہوئی کہ اس مقام پر بھی استاد اس طرح اسپون فیڈنگ کر سکتے ہیں اس دن سر نے سارا کام مجھے پھر سے سمجھایا اور پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ؟اپنے ذہن کی گرہیں میں نے ان کے سامنے کیا خود پر آشکا رنہیں کر پا رہی تھی۔
جس ٹیم کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع ملاوہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ان کے کام پر حیرت مجھے تب ہوئی جب راشد بھائی نے مجھے بتایا کے مریم ،یمنی،اور رفعت کا بھی روشنی میں پہلا تجربہ ہے۔ یہ بس پہلے ایڈیٹرز کو کام کرتے دیکھ کر سیکھا کرتی تھیں۔

سب سے پہلے رائیٹنگ پیسس منتخب کئے جاتے ہیں اور دوسرے تمام شعبۂ جات سے لائی گئی نیوز میں سے اہم خبریں منتخب کرکے ان کا پرنٹ آؤ ٹ لے کر اسے پروف ریڈنگ کی جاتی جو کہ سب سے پہلے مجھے دی گئی کہ ان میں جو بھی گرامر یا لفظی غلطی ہو تو اسے صحیح کیا جائے پھر اس کے بعد اس کا لے آؤٹ نکالا جاتا ہے پھر ہیڈنگ،لیڈز ،کیپشنز،اور ایڈیٹوریل جو کہ ہم کوکسی تازہ خبر کے موضوع پر لکھا کرتے اور سب سے آخرمیں یہ سب سر سہیل سا نگی کو دکھا کر شعبہ کی چئر پرسن میڈم رضوانہ چانگ اور پھر آخر میں پپیسٹنگ کی جاتی ۔

جب پہلی پپیسٹنگ کی گئی جس میں میں شامل نہ ہو سکی تھی اس پر مجھے سر سے بہت ڈانٹ پڑی میں نے تقریباً چار سے پانچ اشاعت تک کام کیا جس میں دو پیسٹنگ مس کی چند خبریں بنائیں اور چند پیس کی پروف ریڈنگ کی مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ایڈیٹنگ کروں یا کلاس لوں۔یہ مسئلہ میں نے سب سے شئیر کیا لیکن سر مجھ سے ہمیشہ نالاں ہی رہے پھر میرے نہ چاہنے کے باوجود بھی سر نے مجھے ایڈیٹنگ سے ہٹا کر بیٹ رپورٹنگ کے لئے منتخب کر دیااور باقی پورے سمسٹر میں نے رپورٹنگ کا کام کیا۔

دوسرے سمسٹر میں میں پہلے ہی بورڈ میں شامل تھی اور ساتھ ہی یمنی اور مریم بھی تھیں پر دوسرے ہی اشیو میں سر نے مجھے انچارج کا عہدہ دے دیایہ کام مجھے پہلے ہی پسند آیا تھا تو اب میں دلچسپی سے کام کرنے لگی ۔ اب میں سینئرتھی اور دوسرے جونئیر،کبھی کمپوزنگ کبھی نیوز سرچنگ ۔میں اور میری ساتھی ماریہ ہم دونوں تقریباًآدھاوقت ساتھ ہی لیب میں گزارتے مزا بھی آتا اور کام بھی ہو جاتا ۔ میں خود کو دوسروں سے برتر اور معزز سمجھنے لگی۔ اور عملا ایسا تھا بھی۔ ایڈیٹر کی کلاس میں عزت ہوتی ہے۔

ایک نہیں کئی دفعہ مجھے لگا کہ یہ کام مجھے چھوڑ دینا چاہئے لیکن پھر سر سانگی کی سپورٹ اور میری ساتھی ماریہ نے یہ پورا سمسٹر اردو سیکشن کا سنبھالا ۔اور اچھی برے تجربے کہاں نہیں ہوتے روشنی میں کام کر کے ہمیں جو تجربہ ملا وہ لاجواب اور زبردست رہا ۔
سر ہمیں ہر بار بچوں کی طرح بتاتے اور سمجھاتے رہے اگر سمجھ نہیں آتی تو ہمیں بہت ہی اچھے اور آسان انداز سے سمجھاتے۔ سر کی مثالیں بھی ان کی طرح دلچسپ تھیں،جسے سر کہتے: وہ اگر کوئی کھانے کی ڈش بنائی جاتی تو اس میں جتنے مسالحہ جات ڈالو گے وہ اتنی ہی مزیدار اور دلکش ہوگی اسی طرح اپنے کام اور لکھائی میں جتنی محنت اور دل لگا کر کام کرو گے تو وہ اتنا ہی بھرپور ہوگا۔

میں نے بلکہ ہم سب نے اپنا کام اپنی پوری محنت اور لگن سے کیا پھر بھی انسان ہر ایک کو مطمئن نہیں کر سکتا کبھی ٹیچر ناراض تو کبھی کسی کا غصہ۔اچھا اور برا تجربہ ہر جگہ ہوتا ہے اسی طرح روشنی کے کام میں بھی ٹائم مینجمنٹ نے بھی مجھے ہمیشہ پریشان رکھا لیکن وقت وہ ہے جو کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔
اسی طرح یہ سمسٹر بھی گزر گیا اب یہ دوسروں کی نظر ہے کہ ہمیں کن لفظوں میں یاد رکھا جائے۔ 

وہ روشنی کی روشنی وہ اک اک لفظ کی سوچ
ایڈیٹنگ کرتے کرتے دن گزرتا تھا روز
کبھی ماریہ کے پاس لے آؤٹ تو کبھی سحرش کرے کمپوز
پھر میڈم کا کہنا کہ کام نہیں بس تم دونوں ہوتے ہو اکسپوز
کبھی پرنٹ اور نیوز کیلئے سر سمیجھو تک دوڑ
اتنا کام کر کرکے بھی حاضری بھولنا روز
کبھی ایڈیٹوریل کا ٹاپک کبھی خبروں کی سرخیاں
سر سانگی کو تنگ کرنامعمول تھا روز
کبھی تصویروں کیلئے ٹینشن کبھی بیٹ کی کمی کا شور
یہ نیوز ہے سندھی میں بھی ہے ہوتا یہ آخر میں غور
اک اک الفاظ سے ایک دوسرے سے بحث
ہر آخر میں کہنا بیٹا جو تیرا دل کہے وہ ٹھونس
سب ساتھیوں کا کہنا کہ کب لگاؤ گے ہمارے پیس
اور سر کا کہنا کہ تم لوگ دوستی نبھاتے ہر روز
کوئی ہوتا مطمئن تو کوئی ناراض
ہر وقت بحر حال گزرجاتی ہے میرے یار
وہ پہلا دن ایڈیٹنگ کادن یا آخری روز
لگتا ہے سال نہیں یہ ہیں چند روز

سحرش سید MA 2k12 کی اسٹوڈنٹ تھی اور اس نے پریویس کے سیکنڈ سیمسٹر کے اختتام پر روشنی میں کام کرنے کے بارے میں یہ لکھا
This practical work was carried out under the supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment