Pages

Friday, July 3, 2015

عبدالرحمن روشنی کی پہلی کرن

   Sehrish Syed  M.A Mass Comm
پروفائیل
عبدالرحمن روشنی کی پہلی کرن

سحرش سیّد
  دنیا میں ہر طرح کے لوگ بنائے ہیں اللہ نے کچھ تو بارہا کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے کچھ نہ سوچے سمجھے بنا کسی پلاننگ کے ہی لوگوں کے لیئے مددگار اور وسیلہ بن جاتے ہیں ۔اسی طرح یہ دنیا کا کارخانہ رواں دواں ہے ہر شخص جو چاہتا ہے نہیں کر پاتا پر انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔جب انسان خود کومضبوط بناتا ہے تو راہ کے ہر کانٹے خود ہی چھنٹ جاتے ہیں اور انسان کے زینہ با زینہ خود ہی قدم آگے بڑھتے جاتے ہیں ایک سے دو یا دو سے گیارہ ہوتے جاتے ہیں اگر انسان یہ سوچے کے میں تنہاہوں وہ کچھ نہیں کرسکتا پہلا قدم تو کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل ہیں جن حل تو کیا ان کی طرف دیکھنا بھی ہماری حکومت کے لیئے محال ہے ان ہی میں کچھ ایسی بیماریاں بھی ہیں جن کا کوئی سدِباب نہیں بلکہ مستقبل میں بھی کچھ دریغاں نہیں۔
ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان کے جسم خون کا معادہ جنھیں پلیٹیلیٹس کہتے ہیں وہ انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نہیں بن پاتے۔پلیٹیلیٹس کا کام یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیں چوٹ لگ جائے اور کوئی زخم ہو تو وہ ہمارے خون کو بہنے سے روکتے ہیں سوچے اگر وہ نہ ہو توہمارا خون لگاتار بہتا رہے اور پھر تو کوئی معجزہ ہی شاید ہمیں بچا سکے۔
 

کراچی جیسے شہر یعنی رواں دواں اور بھاگتی دوڑتی ذندگی میں ایک نارمل بلکہ کبھی توعام لوگوں سے بھی زیادہ ہمت سے کام لینے والے یہ ادھیڑعمر بلکہ یہ کہا جائے کہ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے’مسٹر عبدالرحمن‘جن کی عمر تقریباً۵۶برس ہے
 

جب انھوں نے دنیا میں قدم رکھا اوران کے دودھ کے دانت گرے تو خون نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا ان کے والدین کے لیئے یہ کچھ نئی بات نہ تھی کیونکہ ان سے پہلے بھی ان کے دو چشم وچراغ کو یہ بیماری پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار چکی تھی،انسانی ذات مایوس تو ہوتی ہی یقیناانکی بہت سی امیدیں ٹوٹیں ہونگی اور بہت سے اشک رواں ہو ئے ہونگے۔وقت آخر وقت ہے ہر زخم بھر ہی دیتا ہے ان کی ذندگی بھی عام ڈگر پر آ ہی گئی پراس طرح کے مریض کا خاصہ خیا ل رکھنا پڑتا ہے اس ہی ڈر اور خوف میں انھیں مڈل سے زیادہ اسکول نہ بھیجا گیا اور اعلی بلکہ درمیانی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے۔
یہ خود اس بیماری کے شکار تھے اس لیئے جانتے تھے اس کے مسائل اور ان کے حل بھی۔بہت سے لوگوں کوموت کے گھاٹ اترتے دیکھا تھا جن میں ان کے تین بھائی بھی تھے ۔یہ ایک متواسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے گھر کا پہیہ دوکان کے کرائے سے چل رہا تھا لیکن بیماری بھی اللہ نے دی تھی لیئے مایوس نہ ہوئے اورسوچا کے آنے والوں کے لیئے مسائل کم کیے جائے جب انسان ہمت کرتا ہے تو ربِ ذوللجلال ضرور ساتھ دیتا ہے۔
 

جب یہ تیس برس کی عمر تک پہنچے تب فاطمی فاؤنڈیشن نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سی پی اور ایف ایف پی اور سی پی شروع کی۔یہ اور بھی مریضوں کے ساتھ وہاں گئے اور ڈاکٹر حنیف ڈاگرہ سے ملے جو پاپولر انٹرنیشنل مینیجر تھے انھوں نے ہی انھیں ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی سے ملوایا اور وہاں ہی فیکٹر ایٹ اور نائن اینجیکشن کے بارے میں سنا۔ان ہی دنوں یہ ایک شدید زخم کا شکار ہوئے پر فیکٹر کے استعمال سے جلد افاقہ ہواتب انھوں نے سوچا کے یہ فیکٹر دوسرے مریضوں تک بھی ضرورپہنچنا چاہیے پر اس کی قیمت زیادہ تھی وقتِ ضرورت اسے عام مریض نہیں خرید سکتے تھے حکومت یا کوئی این جی او بھی یہ فیکٹر فراہم نہیں کرتی تھی۔ 

۱۹۹۴ ؁ میں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے ایک نیاِ باب رکھا کراچی بلکہ پاکستان میں پہلی’ہیموفیلیا پیشنٹ ویلفئیر سوسا ئٹی‘قائم کی جوکہ ۱۹۹۵ ؁ میں بقاعدہ رجسٹرڈہوگئی اسی سال پہلا ’ورلڈ ہیموفیلیا ڈے ‘
بھی منایا گیا جس میں حکیم محمد سعید چیف گیسٹ کے طور پر تشریف لائے جس سے ان کی اور ہمت بڑھی۔
 

وہ ڈاکٹر طاہر کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس کارِ خیر میں ان کی بڑی مدد کی.یہ ایک واحد سوسائٹی ہے جو صرف ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیئے ہے.ایچ .پی. ڈبلیو .ایس نے بلامعاوضہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیکٹر ایٹ اور نائن مریضوں کو فراہم کئے.ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیاکینیڈا نے انھیں چار سال کی ممبر شپ بھی دی اور یہ وہاں کے الیکٹیڈ ممبر بھی رہے جس کی ٹرسٹ سے کامیاب سرجریز بھی کی گئی.ڈائیریکٹر لائٹ یو ایس اے میڈم لاری کیلی نے انھیں ’لیڈر آف دا ڈئیر‘اور ان کی آرگنائیزیشن نے ۱۹۹۹ ؁ میں’لیڈر آ ف دا ائیر ‘کے اعزاز دیا۔جب بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایڈ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہماری فوری مدد کی جاتی ہے ۔
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی بنا پر آج بھی یہ آرگنائیزیشن رواں دواں ہے جو کہ ہر اس مریض کو فوراًبلامعاوضہ خون فراہم کرتی ہے ساتھ ہی فیکٹر بھی لگایا جاتا ہے۔
 

عبدالرحمن صاحب اس بیماری پر چار کتب بھی لکھ چکے ہیں جس میں بیماری کے بارے میں مکمل معلومات ہے جب انھوں نے یہ سو سائٹی قائم کی تھی یہ پانچ یا چھ ساتھی تھے پر اب تین سو سے زیادہ ممبر ہیں اور سب ہی اس بیماری کا شکار ہیں یہ خود اس ویلفیئر کے فاؤنڈر اور جنرل سیکریٹری ہیں اور ان کا بھانجا بھی اس بیماری کا شکار ہے اوروہ یوتھ کو ڈیل کرتا ہے۔
 

ماشااللہ ان کی عمر ۵۶برس ہے پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خود کو کبھی تھکا ہوا محسوس نہیں کیا چابیس گھنٹے میں کسی بھی وقت کسی کو ہماری اور ہمارے ادارے کی ضرورت پڑسکتی ہے.جب کسی نوجوان کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہیں تو مایوسی کے بجائے ہمت بڑ ھتی ہے کہ جتنا کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ کرینگے۔
ان کا اس بیماری سے متاثر مریضوں کیلیئے کہنا ہے کہ ہمت نہ ہاریں خود کو نارمل سمجھے اور سے رابطہ کریں سوسائٹی سے رابطہ کریں جتنا بھی ہم کر سکتے ہیں ضرور کرینگے۔


Sehrish Syed student M.A Previous
May, 2012
Department of Mass Communication Sindh University. Writing pieces practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi

ہفت روزہ روشنی
ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment