Pages

Friday, July 3, 2015

نول رائے مارکیٹ ٹاور حیدرآباد : سحرش سیّد

 By Sehrish Syed
نول رائے مارکیٹ ٹاور یا حیدرآباد کا مارکیٹ ٹاور


سحرش سیّد

عمارتیں ملک وقوم کی تاریخ ، تہذیب وتمدن، روایات، معاشرتی اقدار اوروہاں کے رہنے والوں کی سوچوں کا عکس ہوتی ہیں ۔جب ہم کسی ملک یا شہر جاتے ہیں تو سب سے پہلے اس ملک کی موجودہ حالت یعنی ڈھانچے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں لوگ،ان کی ذہنیت اور حکو متی سطح پر یہ ملک دنیاوی نقشے پرکیا اہمیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اہم عمارتیں ہی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں سیاح اور تاریخ داں مختلف ملکوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے دوسرے لوگوں پہنچاسکے۔

عمارتیں کسی بھی خطے کی تاریخ کا آئینہ دار ہوتی ہے،عمارتوں کو دیکھ کر اس علاقے کی جغرافیائی،تاریخی اورمذہبی اہمیت کا اند ازہ لگایاجاسکتاہے اسی طرح ہمارا شہر حیدرآبادسندھ کا دوسرا بڑا شہرہے جس سے میں ہم تالپوریوں کی تعمیر کردہ ٹاور کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں نول رائے ٹاور مارکیٹ گھنٹہ گھر سرفہرست ہے۔

ٹاور کے نام سے ہمارے ذہن میں ایک اونچی اور بڑی عمارت کاخاکہ بنتا ہے پر گھنٹہ گھر ایک درمیانے درجے کی پر دکھنے میں نظروں کوٹہرادینے والی عمارت ہے جس کا تعمیراتی ڈھانچہ انگریزوں کے مذہبی اور ثقافتی اقدار کو نمایاں کرتاہے جس میں جھانک کر عام فہم انسان بھی صدیوں کا سفر طے کر سکتا ہے اور ماضی میں ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے سامنے کھلی کتاب کی طرح پاتا ہے۔

گرہام بیل کی مشہور ایجاد وقت کی پیمائش کا آلہ جسے عام لفظوں میں گھڑی یا گھڑیال کہتے ہیں نول رائے ٹاور مارکیٹ پر آویزاں ہے انگریزوں کے دیئے ہوئے غلامی کے تحفوں میں سے ایک اہم تحفہ یہ بھی ہے جو کہ ان کی اچھی کا وشوں کو یاد دلاتا رہے گایوں تو انگریزوں کی جتنی بھی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں سب ہی اپنی نوعیت میں اہم ہے پر نول رائے ٹاور مارکیٹ ایک اپنے جدا مقام کا حامل ہے،پرانے وقتوں میں شہر حیدرآباد یا نیرون کوٹ اتنا وسیع نہیں ہوا کرتا تھا تب یہ ٹاور ایک باب کی اہمیت رکھتا تھااور وقت اور وقت کی پیمائش میں لوگوں کے لیئے کار آ مد ثابت ہوا کرتا تھاکیونکہ اس وقت لوگوں پاس دورِحاظر کی طرح وقت کے پیمائش کے آلے نہیں ہوا کرتے تھے،لوگ اندازوں اور دوسری سمتی پیمائشوں سے وقت کو جانئے کی کوشش کیا کرتے تھے جو کہ نہ صرف مشکل بلکہ مستند بھی نہیں ہواکرتا تھا۔

ایک وقت کے ریسرچر اور جرنلسٹ رحیم بخش بُر
ق جن کا ریڈیو پاکستان سے ایک ہفتہ وار پروگرام بھی نشر ہوا کرتا تھا۔ان کے مطابق ٹاورزانگریزوں نے اس وقت کے میں بنائے تھے جیسے سکھر، شکارپور،جیکب آباد،کراچی اورہمارے شہر حیدرآباد میں یہ گھنٹہ گھرجو آج تک نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یہ ۱۹۱۴  میں تعمیر کیا گیا جو باب کے طور پر اب تک استعمال میں آتا ہے اور یہ ٹاور مارکیٹ کی خاص پہچان ہے اسی وجہ سے یہ علاقہ ٹاور مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔
شمال سے جنوب کی طرف شہر میں آتی ہوئی راہ میں مارکیٹ کا یہ دروازہ اپنی مثال آپ ہے قدیم وجدید طرزِتعمیر کا شاہکار ایک باب نما شکل کا ہے عین وسط میں گھڑیال لگا ہواہے جو کہ کچھ ماہ پہلے الارم کے ساتھ کام کیا کرتا تھا پر اہلِ محلہ کی پریشانی کے سبب اس کو پھرسے ویران کر دیا گیا اوریوں اب پھر سے صرف ایک تاریخی عمارت رہ گئی ہے جس کی بد نصیبی سے دونوں سمت ہی کی حالتِ زار بھی کچھ خستہ ہورہی ہے۔ 

دونوں جانب گوشت مارکیٹ واقع ہے مشرقی بازو پر سبزی بازار اور مغربی بازو پرپان مارکیٹ،مرغی مارکیٹ اور سابقہ ایلائٹ سینیما عمارت ہے۔ریڑھی والوں کا اپنا سا جادوئی انداز ہے جو کہ ہر راہ گزر کو متاثر کررہا ہے اشیاء خریدنی ہو یا نہ خریدنی ہوپر آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے ہی اچھی خاصی معلومات مل جاتی ہے۔کسی بھی ریڑھی والے کا کوئی دام نہیں کوئی دس پانچ کم کرنے میں مان جاتا ہے کسی سے اچھی خاصی رعایت مل جاتی ہے گو کہ ریڑھی والے بھی اچھی خاصی مارکیٹنگ کی ٹرمنولوجی کو جانتے ہیں جیسی شخصیت ہو ویسی قیمت لگاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے کی گئی مرمت نے اس عمارت کو پھر سے جاذبِ نظر ضروربنایا ہے اوپر کا حصہ سرخ رنگ کا حامل ہے اور بقیہ حصے پر کریم رنگ کیاگیا ہے۔جو بھی ہے ان ہی تاریخی عمارتوں سے ہمار ی تاریخی یادیں وابستہ ہے جو ہمارے بعد آنے والوں کو بھی اس جگہ کی تاریخی قدروقیمت کو اجاگر کرتی ہو ئی نظر آئینگی۔

Sehrish Syed student M.A Previous
May 10, 2012
  Department of Mass Communication Sindh University.
 Writing pieces practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi 



http://weeklyroshni.blogspot.com/2013/09/blog-post_6907.html
ہفت روزہ روشنی
ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment