Pages

Friday, July 3, 2015

کوزی حلیم کے مالک محمد سلیم

پروفائیل
کوزی حلیم کے مالک محمد سلیم
تحریر: ماریہ خان

حیدرآباد میں دعوتی کھانوں کی بات ہو، اور حلیم، کا ذکر نہ ہو۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اگر حلیم کوزی کا نہ ہو تو یوں سمجھئے کہ آپ حلیم کے اصل ذائقے سے محروم ہی ہیں۔ کوزی حلیم کا شمار حیدرآباد کے مشہور و معروف چند کھانوں میں ہوتا ہے جنکی شہرت نہ صرف حیدرآباد بلکہ حیدرآباد سے باہر بھی ہے۔

بے شک’’ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں‘‘۔ ہمت، خود پہ بھروسہ اور یقین کامل وہ عوامل ہیں جو انسان کو ہر میدان مین سرخرو کرتے ہیں۔ انھی عوامل کی بنیاد پر سلیم بھٹی نے اپنے چھوٹے سے ٹھیلے سے اپنے روزگار کا آغاز کیا جوُ ج پورے حیدرآباد میں کوزی حلیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج سے بائیس سال پہلے 6 ستمبر 1990 کو جب سلیم بھٹی نے کوزی حلیم کی داغ بیل ڈالی تو آپ سمیت کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ حلیم حیدرآباد کی پہچان بن جائے گا۔

محم سلیم اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنا فارغ وقت فٹ پاتھ پر باتوں میں گزارا کرتے تھے۔ اس فارغ وقت کو اچھے مصرف میں لانے کے خیال سیانہوں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ حلیم کا کام شروع کیا۔ اس کام کی ابتداء محض ایک ٹھیلے اور دیگ سے کی گئی۔ شروع میں سلیم بھٹی صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتیھ مل کر اس کام کے کئے شدید محنت کی۔ یہاں تک کہ آپ اپنے سر پر دیگ رکھ کر بیچنے کے لئے جایا کرتے تھے۔ یہ ان کی اس انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک ٹھیلے سے شروع کیا جانے والا یہ کام اب ایک کامیاب بزنس کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

شروع میں محمد سلیم نے اس کام کے لئے 18, 20 گھنٹے تک مسلسل کام بھی کیا۔ اس وقت ان لوگوں کے پاس اپنے برتن تک نہیں تھے لیکن کشھ کرنے کی لگن نے انہیں ہمت نہ ہارنے دی اور اسی باعث آپ نے سال کے پورے 364 دن کام کام کرنے کو ترجیح دی اور آج تک آپ اپنے اسی اصول پر کاربند ہیں۔ ا ب پورے سال میں بقرۃ عید کے صرف تین دن ہی آپ کی دوکان بند رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر موسم میں، ہر قسم کے حالات میں یہ دوکان ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔
ا ن کی اسی انتھک محنت اور اپنے کام سے محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج لفظCozy جس کے معنٰی Hot& Spicy کے ہیں محمد سلیم کی وجہ شہرت بن گیا ہے۔
حیدرآبادشہر میں پہلے خواتین کے بیٹھنے کے لئے الگ سے جگہیں مختص نہیں ہوا کرتی تھیں تاہم جب محمد سلیم نے اپنی دوکان کا آغاز کیا تو یہ وہ پہلی دوکان تھی جہاں خواتین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام موجود تھا۔

اگر ہم بھی سلیم بھٹی کی طرح محنت کو اپنا شعار بنا لیں تو خواہ کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو کامیابی ہمیشہ ہمارے قدم چومے گی۔

ماریہ خان، ایم اے پریویس 2012 بیچ

Maria Khan
This practical work was carried out under the supervision of Sir Sohail Sangi

ہفت روزہ روشنی
ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment