Pages

Wednesday, July 1, 2015

ہم بھی صحافی بن گئے : مریم خان

کھیل کھیل بہت کچھ سیکھ لیا
ہم بھی صحافی بن گئے
مریم خان
میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارا تیسرا سال اتنا خوبصورت اور چیلنجنگ گزرے گا۔یونیورسٹی کے پہلے سال سے ہی سینیئرز سے پریکٹیکل ورک کے بارے میں سنتے تھے اور انہیں کام کرتا دیکھتے رہے تھے ۔تب یہ سب کچھ بہت مشکل لگتا تھا ڈر بھی ہوتا تھا کہ ہم یہ سب کیسے کرینگے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوشی اور بے تابی بھی تھی کہ کب ہمارا تھرڈ ایئر شروع ہوگا اور ہم اخبار کا کام کرینگے۔دیکھتے ہی دیکھتے ہماری پڑھائی کا تیسرا سال شروع ہو گیا۔
ٹیچرز کے بائیکاٹ کی وجہ سے یونیورسٹی دو ماہ تک بند رہی لیکن جوش کا یہ عالم تھا کہ ہم نے گھر بیٹھے ہی ٹیم بنائی اور پہلے شمارے پر کام شروع کر دیا تھا ۔خبریں جمع کرنا پھر انکی ایڈٹنگ کرنا،آرٹیکلز ، فیچرز،انٹرویوز، پروفائلز اور ایڈیٹوریل لکھنا ،آپس میں ایک دوسر سے رابطہ رکھنا یہ سب کام پوری ٹیم نے انتہائی محنت اور گرم جوشی کے ساتھ انجام دئیے ۔جب ہمارا ایڈٹ کیا ہوا ’’روشنی‘‘ کا پہلا شمارہ پیسٹنگ ٹیبل پر آیا وہ پل ہم سب پھولے نہیں سما رہے تھے یہ ہم لوگوں کی زندگی کا ایک خوبصورت پل تھا۔اس دن پوری یونیورسٹی خالی ہو چکی تھی ۔ اسٹوڈنٹس پوائنٹ جا چکے تھے اور ہم سب پیسٹنگ کروا کرشام کو ٹیچرز پوائنٹ میں گھر گئے تھے۔ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ یہ اس دن اچھی طرح سمجھ آیا تھا۔

پھر ہفتہ وار اخبار شائع ہونے کا سلسہ شروع ہوا ۔میں اردو کی ایڈیٹر رہی اور ہر ہفتے ہماری ٹیم سب سے پہلے اردو کا کام مکمل کر دیتی اور ہم بڑے مزے سے انگلش اور سندھی کے ایڈیٹرز کو چڑاتے۔خبروں پر لڑائیاں ہوتیں ۔ہر ایڈیٹر کہتا یہ ہمارے سیکشن کی خبر ہے اس وقت مجھے بہت مزہ آتا تھا۔جب بھی کوئی اردو میں خبر تبدیل کروانے آتا ہم ان سے لڑائی کرتے کہ ہم نہیں آپ تبدیل کریں۔لیکن آخر میں سب ایک ٹیم کی طرح مل کر کام کرتے۔یہ ہلکی پھلکی نوک جھوک تو چلتی ہی رہتی تھی۔ ہر دفعہ پیسٹنگ ٹیبل پر سب اپنے پیپر کو سب سے اچھا بول کر اتراتے اور دوسرے سیکشن کی خواہ مخواہ کی غلطیاں نکال کر انہیں چڑاتے۔اسی طرح ہنستے مسکراتے ایک خوشگوار ماحول میں ہم سب نے کام کیا۔

ٹینشن کا وقت بھی گزار ا ۔جب ڈیسک یا رپورٹنگ ٹیم کے لوگ وقت پر اپنا کام مکمل کرکے نہیں دیتے تھے تو بہت غصہ آتا تھا۔رپورٹر ادھوری خبر لے آتے ،مقررہ وقت پر اپنے رائٹنگ پیس جمع نہیں کرواتے اور کچھ رائٹنگ پیس تو ایسے ہوتے تھے جو ایڈٹنگ کے بجائے پورے ہمیں خود لکھنے پڑتے تھے۔پھر ان وجوہات کی وجہ سے طلبہ پر کافی سختی کرتے تھے انہیں سمجھاتے،ایک دفعہ تو ہم نے پورا اردو سیکشن کا اخبار ایک ہی دن میں تیار کیا تھا۔وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی پورے سال کا سب سے چیلنجنگ دن تھا۔اس پورے عمل میں سب سے مشکل کام تھا دوسرے ٹیم میمبرز سے کام کروانا۔سیکشن ہیڈ ہونے کی وجہ سے سر نے مجھے اور یمنٰی کو سارے اختیارات دئیے ہوئے تھے لیکن پھر بھی یہ کام بہت مشکل تھا ۔ پر سر نے بار بار ہمیں اکسایہ اور سکھایا کے اختیارات کو کیسے استعمال کرنا چاہیے اور کافی ٹرکس بھی سکھائیں۔

ان تمام چیزوں سے ہم نے سیکھا کہ کس طرح فیلڈ میں کام کیا جاتا ہے،میڈیا کے شعبے میں وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ہر حال میں آپ نے مقررہ وقت میں اپنا کام پورا کر کے دینا ہوتا ہے۔ وہ سب ہم نے اس سال سیکھا کہ کیسے ٹائم کو مینج کیا جاتا ہے۔سب سے بڑھ کر ہمیں ایک بہت اچھی ٹیم ملی،یہ کسی ایک بندے کا تو کام نہیں پورا ٹیم ورک ہوتا ہے اور ایک اچھی ٹیم کی وجہ سے ہی ہمیں کام کرنے میں اتنا مزہ آیا ۔
پتہ ہی نہیں چلا کھیل کھیل میں کتنا سیکھ لیا اور ایک سال کیسے گزر گیا۔اب ہم بھی خود کو صحافی سمجھنے لگے ہیں اور اخبار نکال سکتے ہیں۔ پورے تھرڈ ایئر کا ایک ایک پل میرے لئے بہت اہم رہا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔


Batch MC-2k10
This practical work was carried out under the supervision of Sir Sohail Sangi
ہفت روزہ روشنی
ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹی 

No comments:

Post a Comment