Pages

Thursday, July 23, 2015

پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں

ندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں
نگہت زیبا سے انٹرویو
 October 2012 
یُمنٰی ریاض ۔ بی ایس پارٹ 3۔ رول نمبر: 95
مس نگہت زیبا نے ضلع سانگھڑ کے شہر شہدادپور سے اپنے ابتدائی ادبی و تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا اور شہر کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت کروائی۔کئی رسالوں و اخبارات میں اب تک آپکی بے شمار تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔ اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے کئی اسکول و کالجز میں پڑھا چکی ہیں۔ 2003 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’دھوپ کے پار‘‘ کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے Board of Studies کی رکن بھی ہیں۔ زبیدہ کالج کی پرنسپل و ہاسٹل نگران بھی رہ چکی ہیں۔ آج کلگورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔

سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیے۔ گھر کے ماحول نے آپ کی کیسے تربیت کی اور آپ پہ کیا اثر ڈالا؟
جواب:میری تعلیم کی ابتداء میرے والد صاحب سے ہوئی جو میرے سب سے اچھے استاد ہیں جن پہ مجھے آج تک فخر ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سات زبانوں کے ماہر تھے۔ مجھے قرآن شریف بمعہ ترجمے کے انہوں نے ہی پڑھایا۔میں نے شاعری و مضمون نگاری بھی اُن ہی سے سیکھی۔ اس کے علاوہ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی اخبار پڑھنا اور اشعار کی تشریح کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس کے بعد کی اپنی تمام ابتدائی تعلیم شہدادپور سے ہی حاصل کی ۔ بعدمیں بھی مجھے قدم قدم پر مہربان، شفیق اساتذہ کی رہنمائی ملتی رہی جنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی باعث میں سیلف میڈ ہونے پر یقین نہیں رکھتی ہوں کیونکہ میرے خیال سے رہنمائی کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں شروع میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اردو کی پوفیسر بنوں۔ اس خواہش کو وپورا کرنے کی خاطر میں نے ایم اے اردو کا انتخاب کیا۔ میری تربیت اور تعلیم میں گھر کے اس ادبی ماحول کا ہی ہاتھ ہے اگر مجھے وہ ماحول میسر نہ ہوتا توآج میں شاید اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔

سوال: ہالا گرلز کالج کا قیام کب اور کن ضروریات کے تحت عمل میں لایا گیا؟
جواب: انٹیریئر میں کالج ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں اسی لئے ہالا میں بھی گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ ہالا کی بچیوں کو کوئی بھی گرلز کالج بہت دور پڑتا تھا۔ مٹیاری سمیت اُس وقت قریب میں کہیں بھی کوئی گرلز کالج نہیں تھا۔ ہالا سے بچیاں سکرنڈ ہی جا سکتی تھیں، شہدادپور جانے کا ان دنوں تصور ہی نہ تھا۔ کچھ لڑکیاں بوائز کالج میں داخلہ تو لے لیتی تھیں لیکن ریگولر کلاسز نہیں لے سکتی تھیں کیوں کہ ہالا کا ماحول ایسا نہیں ہے۔ ان حالات کی بناء پر ہالا میں گرلز کالج بنانے کی ضرورت پیش آئی اور یوں 1986میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہالا قائم ہوا۔

سوال:بطورگرلز کالج پرنسپل کے کسی پہ کیا فرائض و ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
جواب: کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کا سینس ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنی پیشے سے مخلص ہونا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ کالج میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد ہونا چاہئے کہ اس سے بچوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔ ادارہ چاہے اسکول ہو یا کالج اس کو خلوص سے چلانا چاہئے اور اس مین ایسی صحت مند سرگرمیاں ہونی چاہئیں جس سے طالب علموں کو آگے آنے کا موقع ملے۔ اسٹاف کی تکلیفوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ ضرور توجہ دینی چاہئے۔ صفائی اور پینے کے پانی کا مناسب انتظام ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ سب ذمہ داریاں کسی بھی ادارے کے پرنسپل پر لاگو ہوتی ہیں۔

سوال: آپ مشاعروں میں باقاعدہ حجاب کے ساتھ شریک ہوتی رہی ہیں، وہاں آپ کو سب کی جانب سے کیسا رسپانس ملا؟کیا واقعی حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
جواب: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ یہ خود عورت پہ منحصر کرتا ہے کہ وہ خود کو نمایاں کرے یا حجاب کرے۔ بہت سی شاعرات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ماڈل بن کر آتی ہیں انکو بھی لوگ سنتے ہیں اور حجاب، اسکارف والیوں کو بھی سنا جاتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ کلام پہ تعریف کرتے ہیں اور بے باکی پر ہوٹنگ کرتے ہیں۔بلکہ مجھے اس کا بہت فائدہ رہا کہ کبھی بھی لوگ مجھ سے ناجائز فری نہیں ہوتے، نہ ہی کبھی مجھ پہ ہوٹنگ کی گئی۔ ابھی بھی میری بے شمار سوشل، ویلفیئر اور ادبی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ہر جگہ میں نقاب و حجاب مین ہی ہوتی ہوں لیکن میں نے اپنا حجاب کبھی بھی نہیں چھوڑا۔ نہ ہی کبھی مجھے اس پہ شرم یا ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی کے اعتراض کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اسکی بدولت لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔

سوال:آپ کے خیال سے کیا لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے ہونا ضروری ہیں؟
جواب: میں سمجھتی ہوں کہ اگر مخلوط تعلیم ہو تو اس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں لیکن میٹرک تک تعلیم مخلوط نہیں ہونی چاہئے کہ وہ عمر اور ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب بچہ شعور کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو مخلوط تعلیم میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لڑکیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معاشرے میں چلنے کاسلیقہ آتا ہے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہ عورت حجاب اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے تو نہ تو کوئی اس کا بے جا مذاق اڑائے گا اور نہ ہی ناجائز فری ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی ادرے، انکا ماحول، نصاب اور ان کا سلیبسس سب ایک ہی ہونا چاہئے۔

سوال:طالب علموں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: بدقسمتی سے آج کل طالب علموں کا رجحان کھیل تماشوں کی طرف زیادہ ہے۔ ان سے میںیہ کہنا چاہوں گی کہ وہ پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال ہیں اس عرصے کو ضائع نہ کریں اور ان سالوں میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں تاکہ آپ معاشرے کے ایک مفید اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بے جا مشغلوں کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کریں کیونکہ یہ ہی وہ عمر ہے جس میں آپ اپنی قوتوں اور طاقتوں کا صحیح استعمال کر کے اپنے بڑھاپے کو بھی سنوار سکتے ہیں۔

 October 2012
 Practical work done  in BS-III, Mass Communication University of Sindh, under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment