سحرش سید
ایم۔اے پاس
تیسرے اشارے کے لیئے
میرا بھی ایک ووٹ ہے
ہمارا
ملک دن بدن باایمانی،نہ انصافی،غربت،افلاس اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس
جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہےہر کوئی اپنی کھینچو اپنی اوڑھو میں لگا ہوا
ہے۔ کسی کو کسی
کی پرواہ نہیں مطلب جب اپنا کام نکل رہا ہے تو کیوں کچھ کریں؟ جیسا چل رہا
ہے چلنے دو۔ جب دوسرے کچھ نہیں کرے تو ہم کیوں کریں؟
اتنی
لمبی تمہید باندھنے کا مطلب اتنا سا ہے کہ ہم اپنا فرض اور حق ہوتے ہوئے
بھی یہ سوچتے ہوئے کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہوگا اس بات کا احساس مجھے اس
وقت ہوا جب مجھ سے میرے ساتھی نے پوچھا ووٹ کس کو دوگے میں اک دم گڑبڑا کر
رہ گئی کیوں؟ اس لیئے کے میں اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اپنی اتنی بڑی
زاقت کہ بالائے طاق رکھ کرہم صرف اور صرف مسائل گنوانے اور ان کا رونے میں
لگے رہتے ہیں۔
جب
سو میں سے ایک نکال دو سو نننانوے ہوجاتے ہیں تو ایک ایک مل کر سب متحد ہو
کر کیوں کر ہر برائی کو اچھا ئی میں تبدیل نہیں کرسکتے۔مسلمان ہونے کے
ناتے بھی ہمیں یہ درس دیا جاتا ہے کہ اتحاد میں برکت ہے لیکن اس کے لیئے
بھی ہم میں سے کسی ایک کو پہلا قدم اٹھا نا پڑ یگا اگر ہر ایک اپنی ذمہ
داری پوری کرے توگھر کیا ،شہر کیا،ملک کیا،پوری دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے۔
گرتے ہیںشہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ قفل کیا لڑے جو گھٹنوں کے بل
چلے
یہ
ایک ووٹ جو ایک حق کے ساتھ ساتھ ہمارا اولین فرض بھی ہے ہمیں چاہیئے کہ ہم
اسے اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ استعمال میں لائے ووٹ کس کو دینا ہے یا
نہیں دینا ہے اس کا فیصلہ آج کل کے دور میں کوئی نہیں کر پارہا الیکشن سے
مہلے تو ہر ایک اچھا لیڈر اور اہمارا خیر خواہ ہی لگ رہا ہوتا اتنی
رنگینیاںاور پالشیڈ سپنے دکھائے جاتے ہیںکہ ہر کوئی ووٹ کا حقدار لگ رہا
ہوتا ہے
گھوم
پھر کر میرا ذہن پھر وہیں اٹک جاتا ہے ووٹ دوں تو دوں کس کو یہ ہمارا حق
سے ز یادہ فرض ہے
کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔اچھا لیڈر نہیں،ہمارالیڈر نہیں،یا کوئی
اچھا ہی نہیں سو اس کا آ سان حل ہماری قوم یہ نکالتی ہے کہ کسی کو ووٹ ہی
نہ دیا جائے اپنے اس حق سے محروم ہو کر ہم اندھے بہرے کا کردار ادا کر رہے
ہیں۔
دنیا
کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو ہمارا دین بھی ہمیںیہی کہتا ہے کہ حق کا ساتھ
دیاجائے حق آ کر رہے گا اور باطل مٹنے کے لیئے ہی ہے ہمارے مذہب میں بھی
برائی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا بھی برا ئی کا مر تقی ہے ، اچھائی کا
ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے پر ہم اپنے دین کو بالا ئے طاق رکھ کر
اپنے ہی اصو لو ں پر کار بند ہیں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظلم ہے تو ہم
میں سے بہت سے یہی کہےنگے کہ ہم ووٹ ہی نہیں دیتے ،برا ئی کے خلاف اول
ترین جہاد اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے ، اس سے کم تر اسے برا کہنا ہے،اور
آخری اسے صرف اور صرف اسے دل میں کہنا تو ہم سب اپنا اولین فرض کیو نکر ادا
نہیں کرتے۔۔۔
اگر
عام فہم الفا ظ میں کہا جائے تو ہم پاتستا نی اب تک گہری نیند سو رے ہیں
،آ خر کب تک سو تے رہینگے کوئی آکر ہمیں ہمیشہ کے لیئے نہیں سلا دیتا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی
حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
اس
تگ وپیش کے بعد میں اس مقا م پر پہنچی ہوں کہ ایک با شعور اورشہری ہونے کہ
ناتے مجھے اپنا ووٹ ضرور دینا چاہیے چاھے میرا منتخب کردہ امیدوار کامیاب
ہو کہ نہیں پر مجھے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑنا۔
یقینا میں نے آپ کا قیمتی وقت لیا پر کیا کرتی کچھ نہ کچھ تو لکھنا تھا تو میںاپنا موقف آپ کے سامنے واضح کرچکی اب دیکھنا یہ ہے کہ
Written by Sehrish Syed Roll No 60
This practical work was arried in MA prev Mass Comm Sindh University, Jamshoro, under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment