Pages

Thursday, September 10, 2015

علم زندگی بدلنے کے لیے کافی ہے :انٹرویو:سعدیہ ناز



علم زندگی بدلنے کے لیے کافی ہے :عائشہ منضور

انٹرویو:سعدیہ ناز
عائشہ منضور 12 ستمبر 1988کو حیدرآباد کے آبائی علاقے لطیف آباد میں پیدا ہوئیں۔2009 میں شاہ لطیف گرلز کالج سے( بی۔کام) کیا اور غزالی کالج سے (ایم۔کام) جاری ہے انہوں نے نوکری کا آغاز ورلڈ ایجوکیشن ہائی اسکول سے 2004میں کیا۔عائشہ منضور اس وقت بریس مائیکرو فنانس کمپنی میں "برانچ مینیجر"کی پوسٹ پر3سال سے خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔اپنے اباؤاجداد کے پیسوں پر تو ہر کوئی خواہشات اور ضروریات پوری کرتا ہے پر سب کی قسمت ایک جیسی نہیں ہوتی کسی کو اپنی خواہشات کا گلا گھوٹ کر اپنے گھر والوں کی زمیداریاں پوری کرنی ہوتی ہیں۔ایسے ہی حیدر آباد کے علاقے لطیف آباد سے تعلق رکھنے والی غریب گھرانے کی لڑکی عائشہ منضور بھی اپنی تمام خواہشات کو بالائے تاب رکھتے ہوئے بریس مائیکرو فنانس کمپنی میں ملازمت کر کے اپنے گھروالوں کی زمیداریوں کو بہت اچھے سے نبھارہی ہیں۔



س: آپ بریس مائیکرو فنانس کمپنی میں کسی کی مددسے آئی یاخودملازمت تلاش کی؟
ج: پہلے ایک اسکول میں بطور ٹیچرخدمات سر انجام دے رہی تھی اور ساتھ ہی 2009 میں جب بی۔کا م کے پیپر دے کرپاس آؤٹ ہوئی تو پھر میری دوست نے مجھے بریس کمپنی کے بارے میں بتایا کہ وہاں آسامیاںآئی ہوئی ہیں ۔اس طرح سے میں اللہ کا نام لے کر انٹرویو دینے گئی اورانٹرویو میں پوزیشن حاصل کی اوربطور برانچ مینیجر کے لئے کمپنی میں ملازمت مل گئی۔
س: اس کمپنی میں آپ بطور برانچ مینیجر کیاکام کرتی ہیں ؟
ج: بظاہر میں اپنی کمپنی میں ایریا چیکر کی حیثیت سے کام کر رہی ہوں لیکن اسکے علاوہ بھی بہت سی سرگرمیاں ہیں جو کہ میری زمیداری سے بلکل الگ ہیں لیکن پھر بھی میں ان سرگرمیوں کو اپنا فرض سمجھ کر کرتی ہوں جس میں اسٹاف کو فیلڈ میں بھیجناہوتا ہے نئے اور پرانے تمام لون ڈکیومینٹس چیک کرنے ہوتے ہیں پھر جب فیلڈپر اسٹاف کو کوئی مسئلہ پیش آجائے تو ان کی مدداور حوصلہ افزائی کرتی ہوں تاکہ میرا پورا اسٹاف بہتر کام کر سکے اور کمپنی کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہ ہو۔
س: اس ادارے میں آپ کو کیا کام کرنا ہوتا ہے؟
ج: تمام اسٹاف پہلے سروے کرتا ہے کمپنی کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ یہ کمپنی ایک این۔جی۔او ( N.G.O ) کی طرح کام کرتی ہے ۔ تاکہ ہمیں پتہ رہے کہ کس جگہ کے کیا کاروباری حالات ہیں اگر وہاں پر قرضہ دیں تو کیا ہمیں اور ان کو فائدہ ہوگا بھی یا نہیں پھر 15میمبرز کا گروپ بنایا جاتا ہے اور ایک دوسرے کی زمیداری پر ان کو امدادباہمی طور پر آسان شرائط پر قرض فراہم کیاجاتا ہے تاکہ وہ باآسانی اپنے تمام گھر کے افراد کی کفالت کر سکیں ۔



س:آپ پر کیا کیاذمیداریاں ہیں اور آپ کس طرح سمبھالتی ہیں؟
ج:لڑکیوں کا آفس میں کام کرنا کوئی آ سا ن بات نہیں لیکن مجھے اپنی زمیداریاں پوری کرکے بہت اچھا محسوس ہوتا ہے ۔پیسوں کو غریب عوام میں قرضے کی صورت میں دینا پھرہر مہینے قسط کی صورت میں واپس لینا اپنے اسٹاف کی فکر کرنا کہ ان کو فیلڈمیں کوئی دشواری تو نہیں کیونکہ میں روز کم سے کم 70 سے50 کلائنٹ سے ملتی ہوں اوران سے اقسا ط و صول کرتی ہوں اور جو لوگ نئے آتے ہیں ان کی معلومات حاصل کرتی ہوں۔میرا کام صرف فیلڈتک ہی نہیں بلکہ اپنے آفس میں موجود ہ ہر افراد کے کام پر نگاہ رکھتی ہوں۔
س:کام کرنے کے دوران کبھی کوئی پریشانی ہوتی ہے کیونکہ لڑکیوں کے لیے آفس ورک آسان نہیں ہوتا؟
ج: یہ معاشرہ مردوں کا ہے جہاں اگر عورت آگے بڑھنا چاہے تو اسے اپنے ہی لو گوں کی غلط نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔شاعر کیا خوب کہتا ہے:
تہمتیں تو لگتی ہیں،روشنی کی خواہش میں 
گھر سے باہر آنے کی کچھ تو سزا ملتی ہے
کیونکہ آج کل لڑکیاں لڑکوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور یہ بات ہمارے مرد حضرات برداشت نہیں کر سکتے۔
س: آپ یہ کام کسی مجبوری کے تحت کر رہی ہیں یاشوقیہ کر رہی ہیں؟
ج: پہلے یہ مجبوری تھی کیوں کہ میرے والد صاحب کی ملازمت اچانک ختم ہوگئی جس کی وجہ سے میں اپنے گھر کی قفالت کر رہی تھی کیوں کہ میرے دونوں بھائی بے روزگار ہیں اس لیئے یہ میری ضرورت تھی اوراب شوق بن چکا ہے۔ 
س: آ پ خاص طورپر لڑکیوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی ملازمت خراب نہیں ہوتی ان کو ہم اپنے ہاتھوں سے خراب کرتے ہیں اگر ماں باپ اپنی بیٹی پر بھروسہ کرتے ہیں اوران کو باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں تو ان کو بھی چاہیے خدا کے واسطے ان کا بھروسہ نہ توڑیں اور اپنے ماں باپ کا فخر بنے نا کہ بد نامی کا ذریعہ بنے اور اپنے  
مستقبل کو روشن کریں۔
BS-III First semester, April 2015 
Under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment